Monday, June 30, 2025
TOP STORIES

افغانستان میں 1978ء ہونے والی فوجی بغاوت میں قتل ہونے والے مطلق العنان حکمران سردار داؤد خان

افغانستان میں 1978ء ہونے والی فوجی بغاوت میں قتل ہونے والے مطلق العنان حکمران سردار داؤد خان کی نعش کی شناخت 30 سال بعد 26 جون 2008ء کو اس کے جوتوں کے ذریعے کی گئی۔

سردار داؤد محمد خان افغانستان کا ایک بدقسمت حکمران تھا، اسے مرنے کے بعد غسل، کفن اور جنازہ بھی نصیب نہیں ہوا تھا، لوگوں نے دو بڑی بڑی قبریں کھودی تھیں اور اسے اس کے خاندان کے 30 افراد کے ساتھ ان میں سے کسی ایک قبر میں دفن کر دیا تھا۔ اس کے خاندان کے کسی فرد کا جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔ وہ 30 برس تک اس قبر میں پڑا رہا لیکن 26 جون 2008ء کو ایک اتفاقی کھدائی کے دوران یہ دونوں قبریں دریافت ہوئیں اور اس کے پیروں میں موجود جوتوں کے باعث اس کی نعش شناخت کر لی گئی۔ یہ جوتوں کے ذریعے شناخت ہونے والی دنیا کی پہلی نعش تھی اور دنیا کو پہلی بار جوتوں نے بتایا ﮐﮧ ان کا مالک “جنرل سردار محمد داؤد خان” تھا۔

سردار محمد داؤد خان افغانستان کے شاہی خاندان محمد زئی سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 18 جولائی 1909ء کو پیدا ہوا۔ اس نے ابتدائی تعلیم جلیلی سکول کابل، ثانوی تعلیم امینیہ کالج اور اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی، وہ سینٹ کرائی ملٹری اکیڈمی کا گریجوایٹ تھا، اس نے واپسی پر افغان فوج جوائن کی اور 24 برس کی عمر میں میجر جنرل بنا دیا گیا۔ وہ 1934ء میں محض 25 سال کی عمر میں صوبہ ننگر ہار کا جی او سی بن گیا، 1935ء میں وہ قندھار کا جی او سی بنا اور اسی سال اسے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پروموٹ کر دیا گیا۔

وہ دنیا کا کم عمر ترین جنرل تھا۔ 1946ء میں اسے یونیفارم کے ساتھ وزیر دفاع بنا دیا گیا۔ وہ پیرس، برن اور برسلز کے لیے سفیر بھی بنایا گیا اور اسی دوران افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے اسے اپنی ہمشیرہ شہزادی زینب کا رشتہ بھی دے دیا۔ وہ 1952ء میں شاہ کے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل سٹالن کی تدفین کے لیے ماسکو گیا اور یہاں سے اس کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔

وہ روسی حکمرانوں اور “کے جی بی” کا منظور نظر بنا۔ ستمبر 1953ء کو شاہ نے اسے افغانستان کا وزیر اعظم بنا دیا۔ وہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں یونیفارم میں پہلا وزیر اعظم تھا۔ وہ وزیر اعظم بھی تھا۔ وزیر دفاع بھی اور آرمی چیف بھی۔

اس نے وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہی اپنے بھائی سردار محمد عظیم کو افغانستان کا وزیر خارجہ بنا دیا اور آہستہ آہستہ پورے ملک کے اختیارات اپنے قبضے میں لے لئے۔ وہ سوویت یونین کا فکری حلیف تھا چنانچہ اس نے روس کے کہنے پر پاکستان میں پشتونستان کی تحریک شروع کرا دی۔ ظاہر شاہ سردار داؤد کے عزائم اور طالع آزما فطرت کو پہچان گیا چنانچہ اس نے 3 مارچ 1963ء کو اس سے استعفیٰ لے لیا جس کے بعد سردار داؤد نے شاہ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔

شاہ کو اس کی سازشوں کی اطلاع ملی تو اس نے یکم اکتوبر 1964ء کو افغانستان کا آئین بدل دیا جس کی رو سے اب افغانستان کے شاہی خاندان کا کوئی رکن سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ شاہ نے سردار داؤد کا راستہ روکنے کا بندوبست تو کر دیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ دنیا کا مضبوط سے مضبوط ترین آئین بھی فوج کا راستہ نہیں روک سکتا۔

17 جولائی 1973ء کو ظاہر شاہ علاج کے سلسلے میں اٹلی گیا اور پیچھے سے سردار داؤد نے شاہ کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لگا دیا۔ اس نے 1964ء کا آئین منسوخ کیا اور افغانستان کو جمہوریہ افغانستان کا نام دیا اور بیک وقت افغانستان کا صدر، وزیر اعظم اور سنٹرل کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا، اس نے 28 جولائی کو پارلیمنٹ بھی توڑ دی اور ملک کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔

وہ ایک روشن خیال اور اعتدال پسند شخص تھا۔ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں پردے اور داڑھی پر پابندی لگا دی۔ اس نے زنانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ لازمی قرار دے دی۔ مسجدوں پر تالے لگوا دئیے اور ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں شراب خانے اور ڈسکو کلب بنوائے۔ سردار داؤد کے دور میں کابل دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے عیاشی کا اڈہ بن گیا۔ اس دور میں “یورپ” کابل سے شروع ہوتا تھا۔ کابل کے بعد تہران عیاشی کا دوسرا اڈہ تھا، استنبول تیسرا اور اس کے بعد پورا مشرقی یورپ عیاشوں پر کھل جاتا تھا۔

سردار داؤد نے پورے ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں عقوبت خانے بھی بنا رکھے تھے، خفیہ اداروں کے اہلکار اس کے مخالفین کو دن دیہاڑے اٹھا لے جاتے تھے اور اس کے بعد کسی کو ان کا نام اور پتہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا۔ سردار داؤد کے زمانے میں تیس ہزار کے قریب لوگ ’’مسنگ پیپل‘‘ کہلائے اور ان لوگوں کے لواحقین کو بعدازاں ان کی قبروں کا نشان تک نہ ملا۔

جنوری 1974ء میں اس کے خلاف ایک چھوٹی سی بغاوت ہوئی لیکن اس نے تمام باغیوں کے سر قلم کرا دئیے۔ ایک طرف اس کے مظالم جاری تھے اور دوسری طرف وہ عالمی میڈیا کو ایک جمہوریت پسند اور روشن خیال لیڈر کا چہرہ پیش کر رہا تھا۔ اس نے روس کے ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ بھی تعلقات استوار کئے۔

27 فروری 1977ء کو اس نے ملک کو نیا آئین دیا۔ ملک میں صدارتی طرز حکومت اور یک جماعتی نظام قائم کر دیا اور یہ وہ وقت تھا جب اس کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے مارچ 1977ء کو نئی کابینہ بنائی اور اس کابینہ کے سارے عہدے اپنے خاندان اور دوستوں میں تقسیم کر دئیے۔ اس وقت تک ملک میں اس کے خلاف لاوا پک چکا تھا چنانچہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں “خلق” اور “پرچم پارٹی” اس کی مخالف ہو گئیں۔ ملک میں ہنگامے، سیاسی قتل و غارت گری اور مظاہرے شروع ہو گئے۔

وہ ایک ظالم انسان تھا لہٰذا اس نے اپنی عادت کے مطابق اپنے مخالفین کو قتل کرانا شروع کر دیا۔ اس نے 17 اپریل 1978ء کو اپنے سب بڑے مخالف کیمونسٹ لیڈر میر اکبر خان کو قتل کرا دیا اور یہ وہ قتل تھا جس نے سردار داؤد خان کے خلاف نفرت کو ایک نقطے پر جمع کر دیا اور میر اکبر کے قتل کے محض دس دن بعد 27 اپریل کو سردار داؤد کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی۔

فوج نے اسے، اس کے بھائیوں، بیویوں، بیٹیوں، پوتوں اور پوتیوں کو گولی مار دی۔ اس فوجی بغاوت میں اس سمیت اس کے خاندان کے 30 افراد ہلاک ہو گئے۔ داؤد کی نعش کو جیب کے ساتھ باندھا گیا اور کابل شہر میں گھسیٹا گیا۔ داؤد کی نعش جس جگہ سے گزرتی تھی لوگ اس پر تھوکتے تھے اور اسے ٹھڈے مارتے تھے۔ شام کو جب نعش کا سفر مکمل ہوا تو اسے جنازے، غسل اور کفن کے بغیر خاندان کی دوسری نعشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔

یوں سردار محمد داؤد خان کی نعش 30 برس تک ایک گمنام قبر میں پڑی رہی لیکن پھر 26 جون 2008ء کو کھدائی کے دوران کابل شہر میں دو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ دونوں قبروں میں سولہ، سولہ نعشیں تھیں۔ ان نعشوں میں سے ایک نعش کے پاؤں پر مگر مچھ کی کھال کا جوتا تھا۔ جوں ہی جوتے پر پڑی خاک جھاڑی گئی اس کی پالش چمکنے لگی اور یوں اس جوتے نے یہ راز فاش کر دیا اور سردار داؤد کی نعش سامنے آ گئی۔

یہاں ہم قارئین نوائے اوچ کو بتاتے چلیں کہ سردار دائود کے پیروں میں جس کمپنی کے جوتے تھے، اس کمپنی کا دعویٰ تھا ﮐﮧ پچاس برس تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ مٹی میں دفن ہونے کے ایک سو سال بعد تک جوتے کی آب و تاب برقرار رہتی ہے۔

سوئٹزر لینڈ کی جوتے بنانے والی کمپنی دنیا کے صرف ایک ہزار خاندانوں کے لئے جوتے بناتی تھی۔ جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے۔ یہ سنہری چمڑے اور نیلے سینگوں والی گائے ہے اور دنیا کے کسی دوسرے خطے میں گائے کی یہ قسم نہیں ملتی۔ جوتے کی ’’ٹو‘‘ برازیل کے مگر مچھوں کی جلد سے بنائی جاتی ہے۔ جوتے کا ’’کوّا‘‘ افریقہ کے سیاہ ہاتھیوں کے کانوں کے چمڑے سے تیار کیا جاتا تھا اور جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہ چپکائی جاتی تھی اور پیچھے رہ گیا دھاگہ تو ان جوتوں کے لئے بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والے دھاگے استعمال کئے جاتے تھے۔

قبل ازیں افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ اس کمپنی کا ممبر تھا۔ ظاہر شاہ جلا وطن ہوا تو سردار داؤد نے اس کمپنی کی ممبر شپ لے لی اور اس کے بعد اس نے ہمیشہ اس کمپنی کا جوتا استعمال کیا یہاں تک کہ جب 1978ء کو اسے خاندان کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور قتل کے بعد اس کی نعش جیپ کے ساتھ باندھ کر کابل شہر میں گھسیٹی گئی تو اس وقت بھی اس نے یہی جوتا پہن رکھا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

⭕ ادارتی نوٹ: یہ مواد صرف معلوماتی اور صحافتی نقطہء نظر سے پیش کیا گیا ہے۔ ہم کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی، لسانی اور نسل پرستانہ ایجنڈے کی حمایت یا ترویج نہیں کرتے۔ تمام خبریں اور نگارشات عوامی طور پر دستیاب مستند ذرائع کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *