دونوں سگے بھائی باپ کے جنازے میں شرکت کے لئے دنیا پور جا رہے تھے کہ راستے میں دونوں بھائی

میختر ملتان کوئٹہ روڈ پر 12 افراد کو بس سے اتار کر قتل کردیا گیا اس بس میں دنیا پور کے دو سگے بھائی بھی قتل کردئیے گئے جو اپنے باپ کے جنازے میں شرکت کے لئے آرہے تھے
“ایک گھر تھا، جہاں قہقہے گونجتے تھے… ابم وہی گھر جنازوں کی گلی بن چکا ہے!”
ماں نے باپ کی میت کے سرہانے بیٹھ کر تکیے میں منہ چھپا تھا۔
“میرے بیٹے آ جائیں… پھر دفنا لینا… بس آخری دیدار ہو جائے…”
یہی ایک فقرہ وہ بار بار دہرا رہی تھی۔
محلے کی عورتیں دلاسے دے رہی تھیں: “اللہ صبر دے… بیٹے پہنچتے ہوں گے…”
فون آیا… “بی بی جی، معاف کرنا… دونوں بیٹے راستے میں…” “ہاں ہاں، پہنچ گئے؟” ماں بولی۔ “نہیں… مار دیے گئے ہیں…” خاموشی… اور پھر ایک ایسی چیخ، جو محلے کی چھتوں پر جا ٹکرائی…

پھر کچھ گھنٹوں بعد دروازے پر شور ہوا۔
ایک گاڑی، پھر دوسری… اور پھر… ایمبولینس… ماں دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتی، جلدی سے دروازے تک پہنچی… “میرے بچے آ گئے؟”
دروازہ کھلا… آگے ان کے بیٹے نہیں، ان کے جنازے تھے دو سفید کفن… خون آلودہ، خاموش… جنہیں چند لمحے پہلے ماں دعاؤں کے سائے میں روانہ کر چکی تھی۔
ماں وہیں دروازے پر گرتی چلی گئی۔ چیخ نکلی، لیکن آواز کہیں گم ہو گئی۔
پہلا جنازہ صحن میں رکھا گیا — چھوٹا بیٹا… جو ہمیشہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر سوتا تھا…
دوسرا جنازہ بھی رکھ دیا گیا — بڑا بیٹا… جس نے وعدہ کیا تھا: “امی، اس بار عید پر کچھ لے کر آؤں گا…” اور اندر…
تیسرا جنازہ پہلے سے موجود تھا — باپ، جن کے جنازے کے لیے بیٹے آ رہے تھے…
ماں اپنے ہاتھوں سے بچوں کے چہرے کھولتی گئی، اور ہونٹوں سے بس اتنا بولتی رہی:
“ابا کو تم نے کندھا دینا تھا نا…؟
کیوں ساتھ جا رہے ہو بیٹا…؟
چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو…؟”
پھر اُس نے تینوں جنازوں کے قریب بیٹھ کر ہاتھ جوڑ لیے، اور زمین پر ماتھا رکھ دیا
“میرے اللہ! مجھے بھی اٹھا لے… یہ دنیا اب میرے لیے نہیں…”
دروازے پر بھیڑ تھی، اندر خاموشی… چار جنازے اٹھنے تھے…
باپ، دو بیٹے… اور چوتھا جنازہ انسانیت کا…
اے ربّ العالمین!
یہ ماں اب صرف اولاد سے نہیں، پوری دنیا سے تھک چکی ہے… اس پر رحم فرما! ان مظلوموں کو شہداء میں شامل فرما! اور ان درندوں کو دنیا میں ذلیل، آخرت میں جہنم کا ایندھن بنا! آمین، آمین، آمین!